پیکرِ نور ہے وہ نور کا سایا کب ہے

پیکرِ نور ہے وہ نور کا سایا کب ہے

عقلِ انساں ترے اندر وہ سمایا کب ہے


سارے عالم ہیں فدا اُس رُخِ زیبا پہ مگر

پردئہ ِحسن ابھی رب نے اُٹھایا کب ہے


ہم نے ہر حال میں دی آپؐ کی رحمت کو صدا

دردِ دل اور کہیں ہم نے سنایا کب ہے


جھولیاں بھر گئیں بس نام لیا ہے اُن کا

دامنِ دل ابھی اس در پہ بچھایا کب ہے


رب کو رو رو کے مناتے رہے امت کیلئے

ہم نے اِس رشتہِ شفقت کو نبھایا کب ہے


پوچھتا ہے کہ دلوں پر یہ حکومت کیسی

معترض! تو درِ سرکارؐ پہ آیا کب ہے


قبر میں حشر میں دنیا میں ہر اِک جا آقاؐ

بن ترے اور کسی نے بھی بچایا کب ہے


روح احساسِ ندامت سے ہے رنجیدہ شکیلؔ

اُنؐ کی مانی ہے کہاں رب کو منایا کب ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

نور کے جلوے ہوا کی مشکباری واہ واہ

صاحبِ عزّت و جلال آقا

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

اے کاش مہ گنبد خضری نظر آئے

رہتے ہیں مرے دل میں ارمان مدینے کے

عشقِ رسولؐ نعمتِ پرورگار ہے

علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

قدرتِ حق کا شہکارِ قدرت اک نظر