پلکوں پہ تھا لرزاں دل دربارِ رسالتؐ میں

پلکوں پہ تھا لرزاں دل دربارِ رسالتؐ میں

آساں ہوئی ہر مشکل دربارِ رسالتؐ میں


احساسِ ندامت سے تھی روح بھی لرزیدہ

جب پیش ہوا سائل دربارِ رسالتؐ میں


فانوس فروزاں تھے آنکھیں بھی منور تھیں

ہر لحظہ تھی کیا جھلمل دربارِرسالتؐ میں


انوارِ ملائک تھے ، شیخین کے جلوے تھے

محفل تھی عجب محفل دربار ِ رسالتؐ میں


راتوں کے اجالو ں میں چھپ چھب کے اترتے تھے

کتنے ہی مہِ کامل دربارِ رسالتؐ میں


سرشاری کے عالم میں جاں سے نہ گزر پائے

گو جسم نہ تھا حائل دربارِ رسالتؐ میں


نام اس کو کوئی دینا ممکن ہے کہاں تائب

جو چیز ہوئی حاصل دربارِ رسالتؐ میں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

محبت فخر کرتی ہے عقیدت ناز کرتی ہے

وہ نور برستا ہے دن رات مدینے میں

تِرا سایا دیکھوں

صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

خوشا ان کی محبت ہے بسی

امام الانبیاء ختم الرّسل نورِ خدا کہیے

میرا قلم ہے نعت کے اِظہار کے قریب

رہے دل میں تری چاہت بسر ہو

مدینہ شہر کی خوشبو ہوا سے مانگ لیتا ہوں

گناہوں کی نہیں جاتی ہے عادت یارسولَ اللہ