پایا جو لطف شاہِ مدینہؐ کی چاہ میں

پایا جو لطف شاہِ مدینہؐ کی چاہ میں

ممکن نہیں تھا شوکتِ شاہی میں، جاہ میں


اے شافعِ اُممؐ مجھے خود ہی سنبھالئے

گزری ہے میری عمر مسلسل گناہ میں


سن کر ترےؐ ہی فیض کا شہرہ بطورِ خاص

آئے ہیں یا کریمؐ تریؐ بارگاہ میں


ملتی ہے مہر و ماہ کو نورِ نبیؐ کی بھیک

ضوریزیوں کی کب تھی سکت مہر و ماہ میں


در پیش ہر قدم پہ مدینے کا ہو سفر

آئے اجل بھی کاش مدینے کی راہ میں


جس آن ہو شمارِ غلامانِ مصطفیٰؐ

اشفاقؔ کو بھی رکھنا خدارا نگاہ میں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

دل کشا، دل ربا دل کشی ہو گئی

ان پہ سب کچھ نثار کرتے ہیں

جو محروم ہیں تیرے لطف و کرم سے پھریں گے سدا دربدر مارے مارے

ایہہ سب جلوے ایہہ سب روشن نظارے

ایک پل کا وصال دے موہے

یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نِگاہوں کا

پرنور ہے زمانہ صبحِ شبِ وِلادت

کوئی حسین شاہ کے جواب میں، نہیں نہیں

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا