یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نِگاہوں کا

یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نِگاہوں کا

سکوں میں ڈھل گیا سیلاب غم کی آہوں کا


مَہک اٹھی ہیں وہ گلیاں جہاں سے وہ گزرے

چمک اٹھا ہے ستارا اندھیری راہوں کا


ہم آپ کے ہیں سرِ حشر لاج رکھ لینا

اِسی پہ ناز ہے سرکار رو سیا ہوں کا


نقاب اٹھاؤ کہ دیکھیں خدا نما صورت

قرار آپ ہیں حسرت بھری نگاہوں کا


ہے ایک ذرّہ نا چیز وسعتِ کونین

بہت وسیع ہے حلقہ نبیؐ کی باہوں کا


زہےِ نصیب کہ اس کی گلی کا منگتا ہوں

گزارا جس کی عطا پر ہے کج کْلا ہوں کا


گناہ گار ہوں لیکن یہ ناز ہے خالِد ؔ

کہ رحمتوں سے ہے رِشتہ مِرے گناہوں کا

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

سر عرشِ بریں لکھا ہوا ہے

نازشِ انس و جاں شاہِ والا حشم

بخطِّ نور اس دَر پر لکھا ہے

صاحبّ التّاج وہ شاہ معراج وہ

میسر جن کو دید گنبدِ خضریٰ نہیں ہوتی

اوج پر اس گھڑی اپنا بھی مقدّر ہوتا

کوثر کی بات ہو کہ شرابِ طہور کی

اک مصرعۂ ثنا جو کھلا

چشم عنایت ہم پر بھی

ہر طرف غل کس لیے صل علی کا آج ہے