صاحب علم و حکمت پہ لاکھوں سلام

صاحب علم و حکمت پہ لاکھوں سلام

ان کی ہر شان و شوکت پہ لاکھوں سلام

نورِ احمد کی طلعت پہ لاکھوں سلام

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام


عرشِ اعظم کی زینت ہیں جس کے قدم

جس کے قبضے میں ہے علمِ لوح و قلم

جس کے باعث عیاں ہیں حدوث و قدم

شہریارِ ارم تاجدارِ حرم

نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام


جو ہے محبوبِ رب العلیٰ بالیقیں

جس کا چہرہ ہے شمس و قمر سے حسیں

جس کا رتبہ کسی کو ملا ہی نہیں

عرش تا فرش ہے جس کے زیرِ نگیں

اس کی قاہر ریاست پہ لاکھوں سلام


جس کے تلووں سے جبریل ماتھا ملے

حکم پر جس کے چاند اور سورج چلے

جس کے دنیا میں مشہور ہیں معجزے

جس کے آگے سر سروراں خم رہے

اس سرتاجِ رفعت پہ لاکھوں سلام


قابِ قوسین کا جس کو رتبہ ملا

جو نبی اور رسولوں کا سرور ہوا

جس کا چہرہ ہے آئینہء حق نما

جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا

اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام


مدح کرتے ہیں جن کو زمین و زماں

حسن کا ان کے ہم سے ہو کیونکر بیاں

جن کا ہر بول وحیِ خدا بے گماں

پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں

ان لبوں کی نزاکت پہ لَاکھوں سلام


دونوں عالم میں پھیلی ہے جس کی ضیا

جس کے اصحاب ہیں اہل صدق و صفا

منبعِ رحمت و فضل و جود و سخا

وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا

چشمہء علم و حکمت پہ لاکھوں سلام


اس کے اوصاف گنتی میں کب آسکیں

جس کے کوچے پہ قربان سب جنتیں

بادشاہ جس کے در پر کریں منتیں

وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں

اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام


جس کو محبوب اپنا خدا نے چنا

درج قرآں میں ہے جس کی مدح و ثنا

احمد و حامد و مصطفیٰ مجتبیٰ

کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا

اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام


یوں تو معراج ہر ہر نبی کو ہوئی

دیدِ خالق کی حسرت سبھی کو رہی

ربِ ارنی کی درخواست سب نے ہی کی

کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی

آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام


جس کے صرف اک اشارے سے ہو چاند شق

جس کی تعریف میں سوکھیں سب کے حلق

حسن کا جس کے چرچا افق تا افق

لیلتہ القدر میں مطلع الفجر حق

مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام


جس نے سب کی شفاعت پہ باندھی کمر

انبیا کی بھی اس پر لگی ہے نظر

رشکِ صد عرش ہے جس کی خاکِ گزر

صاحبِ رجعتِ شمس و شق القمر

نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام


زینتِ عرش جس کی بنی ایڑیاں

جس کی رہ میں فرشتوں کی پیشانیاں

جس کا کوچہ ہے رشکِ ارم گلستاں

طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں

اس سہی سرو قامت پہ لاکھوں سلام


عرش پر جس کو احمد پکارا گیا

فرش پر جو محمد ہے صل علیٰ

فرش کے نیچے محمود اسم آپ کا

وصف جس کا ہے آئینہء حق نما

اس خدا داد طلعت پہ لاکھوں سلام


نورِ حق ظلِ رب اور اسمِ خدا

مصطفیٰ مجتبیٰ اور خیر الوریٰ

جن کو قرآن نے نعمتہ اللہ کہا

معنیِ قد راٰی مقصدِ ما طغیٰ

نرگسِ باغِ قدرت پہ لاکھوں سلام


جس کی عظمت کے چرچے چمن در چمن

ذکر سے جس کے کافور رنج و محن

وہ منور مطہر معطر بدن

اللہ اللہ وہ بچپنے کی پھبن

اس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام


عرش و کرسی و لوح و قلم اور زمیں

نورِ اول کے صدقہ میں پیدا ہوئیں

وہ کہ تاجِ نبوت کا روشن نگیں

جس کے آگے کھنچی گردنیں جھک گئیں

اس خداداد شوکت پہ لاکھوں سلام


ذاتِ احمد نشانِ وجودِ خدا

وہ رسول الملاحم شہِ دوسرا

جو ہے ان کی رضا وہ خدا کی رضا

شمعِ بزمِ دنیٰ ہو میں گم کن انا

شرحِ متنِ ہویّت پہ لاکھوں سلام


ہر نفس ہر گھڑی ذکر ان کا کروں

ہر طرف ہر گلی ان کا چرچا سنوں

ہو مبارک وہابی کو کیا اور کیوں

دل سمجھ سے ورا ہے مگر یوں کہوں

غنچہء رازِ وحدت پہ لاکھوں سلام


جن کے در کے غلام اغنیا اصفیا

جن کی راہوں کے ذرے ہیں غوث اولیا

جن کی امت پہ نازاں ہیں سب انبیا

مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

جیہڑے محرم راز حقیقت دے

محفل ہے یہ آقا کی کیا خوب نظارے ہیں

تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا

گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے

یہ مرا قول نہیں یہ تو ہے غفار کی بات

آیت آیت میں پیمبر بولے

سدا ممنونِ احساں ہوں کہ

خُدا خُدا اے نبی نبی اے نبی نوں ویکھیں خُدا نہ سمجھیں

یاربِّ محمد مِری تقدیر جگادے

انہی کی بزم میں گذرے ہیں صبح و شام مرے