صاحِبِ شان و ذی وقار حضور

صاحِبِ شان و ذی وقار حضور

جو ہیں محبوبِ کِردگار حضور


غمزدوں کے ہیں غمگُسار حضور

بے قراروں کے ہیں قرار حضور


میں گُناہوں پہ شرمسار حضور

ہے کرم آپ کا شِعار حضور


لامکاں کے مکین ہیں آقا

عرش سے بھی گئے ہیں پار حضور


آپ محبوبِ کبریا ٹھہرے

جان و دل آپ پر نثار حضور


نامداروں میں نام ہے اُونچا

تاجداروں کے تاجدار حضور


کردیا غیب حق تعالیٰ نے

آپ پر سب ہی آشکار حضور


سخت بیمار ہُوں گُناہوں کا

دو شِفا بہرِ چار یار حضور


بات اپنی بِگاڑتا ہُوں میں

اور بناتے ہیں بار بار حضور


حشر میں لاج آپ ہی رکھنا

ہے گُناہوں کا سر پہ بار حضور


منہ خِزاں کا نہ عمر بھر دیکھوں

وہ عطا کیجئے بہار حضور


وہ کرم کیجئے دمِ آخر

میرے لب پر ہو بار بار حضور


وہ مسلمان خُلد پہنچے گا

آپ سے جس کو ہوگا پیار حضور


ہو نظر اپنے سب غلاموں پر

سارے ہوجائیں دیندار حضور


اپنے مرزا پہ ہر گھڑی رکھنا

رحمتیں اور اپنا پیار حضور

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

ہے نظر جن عاشقوں کی کُوئے جاناں کی طرف

مصطفیٰ کا دیار کیا کہنے

سرکارِ دو عالم کا اگر در نہیں دیکھا

عرش سے بھی ماورا آقا گئے

خدا کی راہ پر سب کو چلانے آ گئے آقا

صاحِبِ شان و ذی وقار حضور

شانِ محبوبِ رحمان کیا خوب ہے

مرحبا وہ روضۂ سرکار اللہُ غنی

ٹُوٹے ہُوئے دِلوں کے سہارے حضور ہیں

ذکرِ محبوبِ خدا وِردِ زباں ہو آمین

پُوچھتے مُجھ سے تُم ہو کیا صاحب