تیری لب بندی میں پوشیدہ جمالِ گفتگو
آستانے پہ تیرے لائی ہے حق کہ جُستجو
میرے بابا کا یہ فیضانِ نظر دیکھے کوئی
اِک نظر سے کرتے ہیں جاری دِلوں میں ذِکرِ ہُو
مو تو اقبل ان تمو توا کی یہی تفسیر ہے
اپنا روضہ زندگی میں ہے نظر کے رُو بُرو
روزو شب اِس آستاں سے قادری لنگر ملے
کردیا اِس مردِ حق نے اہلِ دِل کو سر خُرو
سائیں کانواں والیاؒ ، تو نے کیا روشن چراغ
جس کے جلوؤں کی ضیاء باری ہوئی ہے چار سُو
پھر کوئی آئے نہ آئے مرد ِ حق تیری طرح
میکشو ساقی کی چشمِ مست سے بھر لو سبُو
تُو سمندر پی کے بھی خاموش ہے بابا میر ے
بولنے والوں کے حِصّے میں نہ آئی آب جو
یوں تو واصِفؔ اِک زمانہ کے فقیروں سے مِلا
آنکھ نے تازہ کیا آکر یہاں اپنا وضو
شاعر کا نام :- واصف علی واصف
کتاب کا نام :- شبِ راز