اُمَّت پہ آ پڑی عجب افتاد یا نبی

اُمَّت پہ آ پڑی عجب افتاد یا نبی

اپنے بھی ہوگئے ستم ایجاد یا نبیؐ


جب سے ہوئے ہیَں آپؐ کی چوکھٹ سے دور ہم

سنتا نہیں ہے کوئی بھی فریاد یا نبیؐ


بس آپؐ کے سوا نہ کوئی دوسرا رہے

دل کے حِرا میںآپ ہوں آباد یا نبیؐ


امن و اماں کے راستے معدوم ہوگئے

پھیلے ہوئے ہیَں چار ُسو صیّاد یا نبیؐ


پُرسانِ حال کوئی بھی اپنا نہیں رہا

فریاد ہے اِک آپؐ سے فریاد یا نبیؐ


فیضیؔ کی التجا ہے کہ اُمّت پہ ہو کرم

دنیا کے غم سے کیجئے آزاد یا نبیؐ

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

سر روضۂ سرکارؐ کی دہلیز پہ ہے

ماہ سیما ہے اَحْمدِ نوری

ہر شے میں ہے نورِ رُخِ تابانِ محمّدؐ

خیر کی خیرات بھی خیر الورٰی

خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں

کونین میں یُوں جلوہ نُما کوئی نہیں ہے

صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سُناتے جائیں گے

زندگی میری ہے یارب یہ امانت تیری