وہ درد چاہئے مولا کہ چارہ ساز رہے

وہ درد چاہئے مولا کہ چارہ ساز رہے

اِک ایسی آنچ عطا کر کہ دل گداز رہے


ترا ہی عشق ہو دارین میں مِری پہچان

یہاں وہاں یہی تمغائے امتیاز رہے


یہی بہشتِ سماعت یہی بہشتِ کلام

حدیثِ دوست ترا سِلسلہ دراز رہے


تری صفاتِ کرم جب خُدا نے کیں تحریر

لِکھا ترا درِ رحمت ہمیشہ باز رہے


اور اِس کے بعد بصد انبساط و ناز و نشاط

تری نگاہ کو لکھّا کہ کارساز رہے


زباں کا وصف یہ ٹھہرا کہ دل کشائی کرے

بیاں کی شان یہ ٹھہری کہ دل نواز رہے


صفات نامے کے آخر میں یُوں کیا ارقام

حریمِ ناز رہے رونقِ نیاز رہے


یہ اُن کا شہرِ تجلّی یہ کثرتِ جلوہ

پلک نہ جھپکے لگاتار چشم باز رہے


ہجومِ جلوہ میں اپنے لئے دعا نِکلی

خُدا کرے کہ مری زندگی دراز رہے


نہ لِکھ سکے تری مدحت میں ایک موزوں سطر

اگر زمانہ ابد تک رقم طراز رہے


تقّربِ شبِ معراج کِس کی عقل میں آئے

اگر خُدا ہی یہ چاہے کہ راز راز رہے


مَیں اب ہمیشہ ہمیشہ رہوں گا محوِ درود

نظامِ وقت خلل ڈالنے سے باز رہے


خلُوصِ دل سے کوئی نعت ہی کہوں عاصؔی

گناہ گار ہُوں بخشش کا کچھ جواز رہے

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

ہیں صَف آرا سب حُور وملک اور غِلماں خُلد سجاتے ہیں

حسبی ربی جل اللہ ما فی قلبی غیر اللہ

دم میں دم تھا پر مری بے دم سی کیفیت رہی

ہم کھولتے ہیں راز کہ کس سے ہے کیا مراد

میں دن رات نعتِ نبی لکھ رہا ہوں

روزِ محشر جانِ رحمت کا عَلَم لہرائے گا

وہ منزلِ حیات ہے وہ جانِ انقلاب

سرکار کے قدموں پہ یہ سر کیسا لگے گا

نام لے کے ان کا رب سے مانگنا

ہو نہیں سکتا تھا اس سے اور کوئی بہتر جواب