وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

اکِ روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں


رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد گنبد پر

وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں


گرارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو

یہ رنگ نہ ہوں گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں


وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے

ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں


جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا

وہ رازاک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں


جس میکدے کی ایک بوند سے بھی لب کج کلہوں کے تر نہ ہوئے

ہیں آج بھی ہم بے مایہ گدا اس میکدے کے سرشاروں میں


ہم حق کے علمبرداروں کا ہے اب بھی نرالا ٹھاٹ وہی

بادل کی گرج تکبیروں میں بجلی کی تڑپ تلواروں میں


ہیں کرنیں اک ہی مشعل کی ابوبکرؓ وعمرؓ، عثمانؓ، علیؐ

ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں

شاعر کا نام :- ظفر علی خان

دیگر کلام

تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسولﷺ

دل آپ پر تصدق جاں آپ پر سے صدقے

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے

اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولﷺ

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

صبح میلادالنبی ہے کیا سہانا نور ہے

اللہ نے یوں شان بڑھائی ترے در کے

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی