یہ دل کہہ رہا ہے کہ آتا ہے کوئی

یہ دل کہہ رہا ہے کہ آتا ہے کوئی

مدینے سے پیغام لاتا ہے کوئی


زباں سے نکلتے ہی نامِ مُحمَّد

نظر میں مری آ، سماتا ہے کوئی


مدینے کی گلیوں میں ہر ہر قدم پر

جبینِ مُحبَّت جُھکاتا ہے کوئی


کہے جا صبا ہاں مُحمَّد مُحمَّد

کہ اس نام سے چین پاتا ہے کوئی


مری آنکھ میں آہی جاتے ہیں آنسو

مدینے کی جانب جو جاتا ہے کوئی


مدینے کو میں یہ خُدا جانتا ہے

نہیں جا رہا ہوں بُلاتا ہے کوئی


کوئی جانِ طیبہ سے بہزؔاد کہہ دے

بہت ہجر کا غم اُٹھاتا ہے کوئی

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

کرم بن گئی ہے عطا ہوگئی ہے

واہ کیا جود و کرم ہے

اُس رحمتِ عالم کی عطا سب کے لئے ہے

آنکھوں کا تارا نامِ محمد

یَا نَبِیْ سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلْ سَلَامٌ عَلَیْکَ

وسے تیرا دربار پیا پا جھولی خیر فقیراں نوں

ہے دل کی حسرت ہر ایک لمحے

دورِ ظلمت بیت گیا اب

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

میں دنیا دے کوبے اندر