یوں مرا قلب مدینے کی طرف جاتا ہے

یوں مرا قلب مدینے کی طرف جاتا ہے

جیسے بیمار ہے جینے کی طرف جاتا ہے


ذکر خوشبو کا جو چلتا ہے سرِ بزمِ وفا

دھیان آقا کے پسینے کی طرف جاتا ہے


ایسا لگتا ہے مواجہ کی طرف جاتے ہوئے

ہر قدم عرش کے زینے کی طرف جاتا ہے


چومتی ہے دلِ مضطر کو سفر کی خواہش

سال جب حج کے مہینے کی طرف جاتا ہے


نامِ سرکار جو آتا ہے مرے ہونٹوں پر

ابرِ رحمت مرے سینے کی طرف جاتا ہے


ایسے جاتا ہے قلم جانبِ مدحت، جیسے

اک تہی دست خزینے کی طرف جاتا ہے


ہر گھڑی شہرِ معطر کی حسیں یادوں کا

قافلہ سبز نگینے کی طرف جاتا ہے


یاد رکھ، الفتِ آلِ نبیٔ رحمت کا

راستہ ناجی سفینے کی طرف جاتا ہے


رتبۂ نعت عطا ہوتا ہے اشفاق اسے

لفظ جو عجز قرینے کی طرف جاتا ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

جمال با کمال رنگ و نور لاجواب ہے

جاواں صدقے مدینے دے سلطان توں دو جہاں جس دی خاطر بنائے گئے

حُبِ رسولؐ بھی نہیں خوفِ خدا نہیں

کملی والیا شاه اسوارا

گزری جدھر جدھر سے سواری حضور کی

جس کو کوئی آپ کے جیسا لگا

سلام اس پر خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے

وہ جن کی یاد سے دل کا مکان روشن ہے

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

جلوہ حق کی بات ہوتی ہے