یوں مرا قلب مدینے کی طرف جاتا ہے
جیسے بیمار ہے جینے کی طرف جاتا ہے
ذکر خوشبو کا جو چلتا ہے سرِ بزمِ وفا
دھیان آقا کے پسینے کی طرف جاتا ہے
ایسا لگتا ہے مواجہ کی طرف جاتے ہوئے
ہر قدم عرش کے زینے کی طرف جاتا ہے
چومتی ہے دلِ مضطر کو سفر کی خواہش
سال جب حج کے مہینے کی طرف جاتا ہے
نامِ سرکار جو آتا ہے مرے ہونٹوں پر
ابرِ رحمت مرے سینے کی طرف جاتا ہے
ایسے جاتا ہے قلم جانبِ مدحت، جیسے
اک تہی دست خزینے کی طرف جاتا ہے
ہر گھڑی شہرِ معطر کی حسیں یادوں کا
قافلہ سبز نگینے کی طرف جاتا ہے
یاد رکھ، الفتِ آلِ نبیٔ رحمت کا
راستہ ناجی سفینے کی طرف جاتا ہے
رتبۂ نعت عطا ہوتا ہے اشفاق اسے
لفظ جو عجز قرینے کی طرف جاتا ہے
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت