ذکرِ بطحا نہیں سناتے ہو

ذکرِ بطحا نہیں سناتے ہو

کیوں مرا صبر آزماتے ہو


میں چراغِ سحر ہوں خضرٰی کا

’’مجھ کو جلنے دو کیوں بُجھاتے ہو‘‘


اذنِ آقا ملا ہے بطحا کا

کیوں مجھے تنہا چھوڑ جاتے ہو


روتا رہتا ہوں میں نہ جانے کیوں

جب بھی خضرٰی سے مڑ کے آتے ہو


خاکِ بطحا لگی جو قدموں سے

چومتا ہوں مجھے! دکھاتے ہو!


تم کو میلاد پر سلامی دوں

اپنی گلیوں کو جو سجاتے ہو


لوریوں کی اسے نہیں حاجت

پڑھ کے مدحت جسے سلاتے ہو


سانس دھیمے سے کھینچئے قائم

جب درِ مصطفٰی پہ جاتے ہو

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

ثنا کی مجھ کو ملے روشنی کبھی نہ کبھی

ابتدا انتہا سروری پرکشش

سخن با آبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے

عندلیبِ خیال آپ سے ہے

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

جہانِ رنگ و بو کی نکہتوں میں مصطفیٰ ڈھونڈوں

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا

درود ان کے حسیں ہاتھوں پہ رب کا آسماں بولے

چلو مدحت سنا دیں ہم کہ ہیں میلاد کی خوشیاں