اگر ہے عشق کا دعوٰی تو خوفِ امتحاں کیسا
لگی ہو عشق کی آتش تو پھر اُس میں دھواں کیسا
خُدا محمود کے منصب پہ جب اُنْ کو بٹھائے گا
تو اہلِ حشر دیکھیں گے کہ ہوگا وہ سماں کیسا
بُلا کر پاس ’’ادنیٰ‘‘ پر جنہیں دِکھلا دیا جلوہ
رہا اُن سے بھلا اوجھل کوئی رازِ نہاں کیسا
غُلاموں کی بھلا اپنی کوئی مرضی بھی ہوتی ہے؟
جو ہیں اُن کی غُلامی میں تو پھر چُون و چراں کیسا
رہِ عشق و محبّت میں تو غم آتے ہیں پے در پے
جو اِس رہ کے مُسافر ہو تو پھر رنجِ زیاں کیسا
وہ جس در پر سلامی کو فرشتوں کا رہے آنا
تو ہوگا وہ منوّر اور مُعطّر آستاں کیسا
کبوتر خوش مُقدّر ہیں کہ رہتے ہیں وہ روضے پر
ذرا حسرت سے دیکھیں تو ، ہے اُن کا آشیاں کیسا
جو لےکر اُن کی یادوں کو اُتر جاتے ہیں قبروں میں
تو دیکھیں نُور برساتا ہے اُن پر آسماں کیسا
جو اپنا جینا مرنا ہی اُنہی کے نام کر ڈالا
تو سوچوں میں جلیل اپنی ، رہے سُود و زیاں کیسا
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت