مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

یُوں عُمر بھر یہ نوکری کرتا رہوں گا میں


یہ چاکری حضور کی جاری رہی اگر

پُختہ یقین ہے کہ سنورتا رہوں گا میں


گرد و غُبارِ وقت کے ہونے کے باوجود

لکھتا رہوں گا نعت ، نکھرتا رہوں گا میں


صلِّ علٰی کا ذکر ہے توشہ ، سو اِس لئے

دامن کو ذکرِ خیر سے بھرتا رہوں گا میں


ہر دُشمنِ رسول سے اپنے قلم کے ساتھ

ہر بار ہر محاذ پہ لڑتا رہوں گا میں


سرپر مرے کریم کا دستِ کرم جو ہے

میداں میں جان و دل سے اُترتا رہوں گا میں


پہنچا نہ پائے گا مُجھے شیطان بھی گزند

سُنّت پہ جب تلک یوں ہی چلتا رہوں گا میں


میں جالیوں کے سامنے جاؤں گا جس گھڑی

اشکوں سے تر نگاہ سے تکتا رہوں گا میں


چلتی رہے گی سانس مری جب تلک جلیل

بس مدحتِ حضور ہی کرتا رہوں گا میں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں

ہوتی ہیں تواں روحیں اظہارِ محبّت سے

اگر ہے عشق کا دعوٰی تو خوفِ امتحاں کیسا