کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

وہ شاہکارِ حُسن ہے ، وہ لا جواب ہے


اُن کے رُخِ حَسین کا پرتَو ہیں سب کے سب

تارے ہیں، ماہتاب ہے یا آفتاب ہے


ذکرِ خُدا و مُصطفٰے وجہِ سکون بس

اِس کے سِوا جو سوچ ہے، سارا سراب ہے


رونق ہے زندگی میں محمد کی یاد سے

ورنہ حیات ساری کی ساری عذاب ہے


کس پل شبِ سیاہ کی ہوگی سحر،کریمْ !

رگ رگ میں جا گزین بڑا اِضطراب ہے


اُمّت پہ کیجے ایک نظر اے مرے حضور !

نرغے میں غیر کے ہے یہ، زیرِ عتاب ہے


جینے کے سب جہان کو جس نے دیے اُصول

خُطبہ وہ شاہا آپ کا کامل نصاب ہے


تعبیر اِس کی ڈھونڈتے گُزری ہے اپنی عُمر

طیبہ میں آئے موت بس، اِتنا سا خواب ہے


دہلیز پر جو آپْ کی بیٹھا ہے خوش نصیب

سارے جہان میں وہی عزّت مآب ہے


اِس زندگی کو وقفِ ثنا کیجئے جلیل

گُزرے اُنہی کے نام پہ ، گرچہ حباب ہے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو

درِ مُصطفٰے سے جو نسبت نہیں ہے

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں