بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

سارے جہاں پہ نُور سا برسا گئے حضور


اَنعام سے بھی بڑھ کے ہماری تھی زندگی

گُر سب ہمیں حیات کے سکھلا گئے حضور


دُشوار تھے گو راستے، منزل بھی دور تھی

منزل کا پر نشاں ہمیں دِکھلا گئے حضور


سلجھا نہ پائے فلسفی جس کو تمام عُمر

عُقدہ وہ ایک لفظ میں سلجھا گئے حضور


سب جل رہے تھے بُغض و عداوت کی آگ میں

اُس کو بُجھا کے پیار سےدِکھلا گئے حضور


اِنسان سے بھلا کرو، راضی رہے خُدا

اِنساں کو مخفی راز یہ بتلا گئے حضور


ماحول نفرتوں کے سبب تھا گُھٹن زدہ

خوشبُو سے اُس کو پیار کی مہکا گئے حضور


مُردے جِلانا معجزہ گرچہ تھا خوب تر

کنکر سے لا الہ بھی پڑھوا گئے حضور


صدیاں گُزر گئی ہیں پہ بدلا نہ ایک حرف

حق ہے وہی جلیل جو فرما گئے حضور

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

بے کسوں کا تُمھی سہارا ہو

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو

درِ مُصطفٰے سے جو نسبت نہیں ہے

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی