بے کسوں کا تُمھی سہارا ہو

بے کسوں کا تُمھی سہارا ہو

میری جانب بھی اِک اِشارہ ہو


ڈوبا سُورج پلٹ کے آتا ہے

تیری اُنگلی کا گر اشارہ ہو


کون ہے جس نے چاند کو ایسے

اک اِشارے سے توڑ ڈالا ہو


میری گرداب میں گِھری کشتی

پہنچے ساحل پہ گر اشارہ ہو


روزِ محشر گُناہ گاروں کا

میرے آقا ! تُمھی سہارا ہو


حشر میں جاں بدن جُھلستے ہوں

تیری رحمت کا سر پہ سایہ ہو


گو ہوں خاطی، مگر مدینے میں

کیا عجب ہے ، مرا بُلاوا ہو


میرے لب پر درود کے صدقے

میری تربت میں بھی اُجالا ہو


اپنے دامن میں یُوں چُھپا لیجے

عیب کوئی نہ آشکارا ہو


اُنکی اُمّت جلے جہنّم میں

مُصطفٰے کو یہ کب گوارا ہو


غیر ممکن جلیل وہ نہ سُنیں

جب کسی نے جہاں پُکارا ہو

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

جان دینی ہے، یہ خبر رکھیے

نمونہ عمل کا حیاتی ہے اُن کی

ہم نے سیکھا اُسوۂ سرکارسے

ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے

فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو

درِ مُصطفٰے سے جو نسبت نہیں ہے

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور