جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

میرے ہمراہ یہ مدحت کا حوالہ جائے


کاش مقبول ہو مدحت یہ دعا ہے میری

اِس کے صدقے مرے آلام کو ٹالا جائے


اپنے سرکار کی سُنّت کو وظیفہ کر کے

اُن کی اُلفت کو مرے ساتھ بڑھایا جائے


خاک روبی جسے حاصل ہوئی ان کے در کی

اس کا حق ہے کہ اُسے سر پہ بٹھایا جائے


زندگی ڈوب کے عصیاں میں گُزاری ساری

اب تو لازم ہے کہ احوال کو بدلا جائے


پھر اُٹھیں گے تری آنکھوں سے یہ پردے سارے

خاکِ طیبہ کو جو آنکھوں میں لگایا جائے


کیسے پڑھتے ہیں وہ قُرآن،سِناں پر چڑھ کر

اِبنِ حیدر کو ذرا غور سے دیکھا جائے


مُنہ دکھانے کے کسی طور نہیں ہے قابل

حال کس طرح جلیل اپنا سُنایا جائے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا

بے کسوں کا تُمھی سہارا ہو

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو

درِ مُصطفٰے سے جو نسبت نہیں ہے

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ