مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

آپ ہی کا تذکرہ ہے آسمان تک


معراج کی شب رُک گئے سِدرہ پہ جبرائیل

سفر تھا مرے کریم کا پر لامکان تک


بجسمِ پاک آپ کا جانا ہوا ، جہاں

اِنسان کا جاتا نہیں وہم و گُمان تک


مال و منال و منصب و جاگیر ہے ہی کیا

واریں گے اُن کےنام پریہ جسم و جان تک


تھاما ہے جن کےہاتھ کو میرے کریم نے

پھر اُن پہ مہرباں ہوئے ہیں دُشمنان تک


چُھوٹا ہے جن کے ہاتھ سے دامانِ مُصطفٰے

اُن کا جہاں سے مٹ گیا نام و نشان تک


منزل پہ لے کے جائیں گے وہ قافلہ سالار

ہم کو تو پہنچنا ہے فقط کاروان تک


اِذنِ ثنا ملا جنہیں ، اِخلاص ہو نصیب

مدحت نگار سے شہا ! ہر نعت خوان تک


ناموسِ مُصطفٰےپہ ہے قُربان سب جلیل

یہ مال و جاں ، اولاد ، مرا خاندان تک

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

درِ مُصطفٰے سے جو نسبت نہیں ہے

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں

ہوتی ہیں تواں روحیں اظہارِ محبّت سے