بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

پھر تو لہجے میں چاشنی ہوگی


اشک بہتے ہوں جب مواجہ پر

کیا ہی عُمدہ وہ حاضری ہوگی


ارضِ طیبہ پہ دن جوگُزریں گے

وہ حقیقت میں زندگی ہوگی


اُن کی سیرت سے روشنی لیجے

قبر و محشر میں روشنی ہوگی


بابِ حیدر سے ہو کے گر جائیں

علمِ احمد سے آگہی ہوگی


اُنکی مدحت میں کی اگر ہو تو

وہ حقیقت میں شاعری ہوگی


ان کو ہر دم جلیل یاد کرو

اِس سے ایماں میں تازگی ہوگی

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

بڑھنے لگیں جو ظلمتیں پھر آ گئے حضور

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں

ہوتی ہیں تواں روحیں اظہارِ محبّت سے

اگر ہے عشق کا دعوٰی تو خوفِ امتحاں کیسا

پلٹنا ارضِ بطحا سے گوارا ہو نہیں سکتا

اللہ کے حضور میں بس وہ ہوا قبول