مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں

مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں

نصیبے بد نصیبوں کے وہیں جا کر سنورتے ہیں


غُلامِ مُصطفٰےبھی ہوں،حُسینی بھی دل و جاں سے

تو بُو جہلوں ، یزیدوں سے، کہاں عُشّاق ڈرتے ہیں


مُحمّد کے غُلاموں کی تو رہ میں ہوں اگر دریا

جلا کر کشتیاں اپنی ، وہ دریا میں اُترتے ہیں


مُحمّد کے غُلاموں کو ڈبو سکتا نہیں کوئی

وہ پاتالوں میں جاکر بھی وہاں سے پھر اُبھرتے ہیں


جو اُن کے در پہ جا پہنچے ،وہی تو خوش مُقدّر ہیں

کہ ایماں ، اہلِ ایماں کے وہیں جا کر نکھرتے ہیں


جہاں کے بادشاہوں کو بھی اُن پر رشک آتا ہے

کہ جن کے روز و شب آقا ! ترے در پر گُزرتے ہیں


قضا آنی تو ہے لیکن ہمیں جب بھی قضا آئے

مدینے شہر میں ہوں بس ، تمنّا یہ ہی کرتے ہیں


جلیل اُن کا کرم سایہ فگن جن کے سروں پر ہو

تو بے خوف و خطر غم کے وہ صحرا سے گُزرتے ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

کس میں رُخِ حضورْ کو تکنے کی تاب ہے

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

ہوتی ہیں تواں روحیں اظہارِ محبّت سے

اگر ہے عشق کا دعوٰی تو خوفِ امتحاں کیسا

پلٹنا ارضِ بطحا سے گوارا ہو نہیں سکتا

اللہ کے حضور میں بس وہ ہوا قبول

بہت ناز ان کے اُٹھائے گی دُنیا