نمونہ عمل کا حیاتی ہے اُن کی

نمونہ عمل کا حیاتی ہے اُن کی

سبق سچا سیرت سکھاتی ہے اُن کی


چلیں قافلے جب مدینے کی جانب

بہت یاد ہم کو رُلاتی ہے اُن کی


تسلی درودوں سے ملتی ہے بے حد

اگر یاد ہم کو ستاتی ہے اُن کی


ہے یادِ محمّد کا احسان ہم پر

یہ سینوں میں اُلفت بڑھاتی ہے اُن کی


لحد ، جس میں کوئی بھی یاور نہ ہوگا

محبّت وہاں کام آتی ہے اُن کی


دو عالم کے رب نے کہا ان کو رحمت

سو رحمت بھی کُل کائناتی ہے اُن کی


جہاں تک نہ پہنچا تصور کسی کا

وہاں بے شبہ ذات جاتی ہے اُن کی


صحابہ ہمیشہ ہی سرشار رہتے

کہ صُورت دلوں کو لُبھاتی ہے اُن کی


جگر چھلنی کرتی ہے لمحہ بہ لمحہ

جُدائی جو اندر سے کھاتی ہے اُن کی


کرو خدمتِ خَلق ، راضی خُدا ہو

حدیثِ مبارک بتاتی ہے اُن کی


جلیل ان کی سیرت نے جینا سکھایا

نظر سیدھا رستہ دکھاتی ہے اُن کی

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

مثالی ہر زمانے میں مرے آقا ! ترا جینا

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

میری منزل کا مُجھ کو پتہ دے کوئی

جان دینی ہے، یہ خبر رکھیے

ہم نے سیکھا اُسوۂ سرکارسے

ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے

فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا

بے کسوں کا تُمھی سہارا ہو

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو