کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

پھر سُنیں گے یہ داستاں ہم سے


اب خُدارا معاف کر دیجے

ہو گئی ہیں جو غلطیاں ہم سے


ایک پل بھی گریز کرتا نہیں

تیری رحمت کا آسماں ہم سے


تیرے رُخ کا یہ سب اُجالا ہے

سامنے ہے یہ کہکشاں ہم سے


تیرے صدقے میں پا لیا ساحل

گرچہ چُھوٹے تھے بادباں ہم سے


اِک قیامت غریب پر گُزری

تیرا روضہ ہُوا نِہاں ہم سے


تیری مدحت میں سارا قُرآں ہے

کیسے ہوگی شہا ! بیاں ہم سے


یہ ترا ہی تو فیضِ نسبت ہے

بولے جاتے ہیں بے زباں ہم سے


بے عمل ہیں پہ تیرے صدقے میں

لوگ رہتے ہیں خوش گُماں ہم سے


تُجھ سے دُوری کا یہ نتیجہ ہے

چِھن گیا ہے جو سائباں ہم سے


ہو کرم کی نگاہ ہم پر بھی

چھوٹ جائے نہ کارواں ہم سے


اُن کے در پر جلیل راحت ہے

کہہ رہے ہیں یہ جسم و جاں ہم سے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

سیدِ ابرار نے ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

رحمتوں کا گر خزانہ چاہئے

میرے شام و سحر مدینے میں

اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

مثالی ہر زمانے میں مرے آقا ! ترا جینا

میری منزل کا مُجھ کو پتہ دے کوئی

جان دینی ہے، یہ خبر رکھیے

نمونہ عمل کا حیاتی ہے اُن کی

ہم نے سیکھا اُسوۂ سرکارسے

ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے