میرے شام و سحر مدینے میں

میرے شام و سحر مدینے میں

کاش ! ہوتے بسر مدینے میں


شب گُزرتی جو اپنی مکّہ میں

اور ہوتی سحر مدینے میں


ہوتی رہتی ہے نُور کی بارش

جا کے دیکھیں جدھر مدینے میں


جن کی ضو سے جہان روشن ہے

ہیں وہ لعل و گُہر مدینے میں


دیکھتا روز اُن کے روضے کو

میرا ہوتا جو گھر مدینے میں


میں اٹک میں ہوں جبکہ رہتے ہیں

میرے جان و جگر مدینے میں


اپنی جانوں پہ ظُلم کر کے بھی

بخشے جاتے ہیں پر ، مدینے میں


میری تکلیف کی نہیں مجھ کو

اُن کو پہنچی خبر مدینے میں


ہم بھی اک دن جلیل دیکھیں گے

شاہِ والا کا در مدینے میں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

میرے مولا کا مُجھ پر کرم ہو گیا

نبی کے نام سے جاگی ہے روشنی دل سے

ترے در سے غُلامی کا ، شہا ! رشتہ پُرانا ہے

سیدِ ابرار نے ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

رحمتوں کا گر خزانہ چاہئے

اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

مثالی ہر زمانے میں مرے آقا ! ترا جینا

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

میری منزل کا مُجھ کو پتہ دے کوئی

جان دینی ہے، یہ خبر رکھیے