میری منزل کا مُجھ کو پتہ دے کوئی

میری منزل کا مُجھ کو پتہ دے کوئی

بس مدینے کا رستہ دِکھا دے کوئی


اِک نشاں بھی تو منزل کا دِکھتا نہیں

راہِ طیبہ پہ مُجھ کو لگا دے کوئی


اُس کو تکنے کا مُجھ کو بڑا شوق ہے

ان کے کُوچے میں مُجھ کو گُھما دے کوئی


اُن کے جیسا تو جگ میں کہاں ہے بھلا

اِک بلالِ حبش سا دِکھا دے کوئی


چل ترا نام بھی اب پُکارا گیا

یہ جلیل آ کے مُژدہ سُنا دے کوئی

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

رحمتوں کا گر خزانہ چاہئے

میرے شام و سحر مدینے میں

اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

مثالی ہر زمانے میں مرے آقا ! ترا جینا

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

جان دینی ہے، یہ خبر رکھیے

نمونہ عمل کا حیاتی ہے اُن کی

ہم نے سیکھا اُسوۂ سرکارسے

ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے

فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا