اعتبارِ نطق ہے گفتارِ خیرؐالانبیاء

اعتبارِ نطق ہے گفتارِ خیرؐالانبیاء

نَو بہارِ خُلق ہے کردارِ خیرؐالانبیاء


حُسن بن کر زیست کے آفاق پر لہرائے گئے

صورتِ قوسِ قزح افکارِ خیرؐالانبیاء


مشعلِ راہِ ہدایت آپؐ کی شرعِ متیں

ہیں دو عالم کو محیط انورِ خیرؐالانبیاء


رنگ و بوئے دہر پامال ِ خزاں ہوجائیگا

کم نہ ہو گی نزہتِ گلزارِ خیرؐالانبیاء


سر جھکائے ہیں فقیر و تاجدار آکر یہاں

اللہ اللہ شوکتِ دربارِ خیرؐالانبیاء


کیوں نہ تائب آبروئے مُصطفےٰ پر جان دیں

موت پر ٹھہرا ہے جب دیدارِ خیرؐالانبیاء

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

جتنی اُلجھنیں ہیں ، جتنی کلفتیں ہیں

اعزاز یہ سرکارؐ کی سیرت کے لیے ہے

آمادہ شر پھر ہیں ستم گر مرے آقاؐ

یکتا ہے ترا طرزِ عمل ، احمدِؐ مرسل

رُوح کی تسکیں ہے ذِکر ِ احمدؐ ِ مختار میں

دنیا کے مسلے ہوں کہ عقبیٰ کے مر حلے

کیوں نہ عالم ہو دریوزہ گر آپ کا

خلق دیتی ہے دہائی مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ

نورِ نگاہِ خَلق ہو، رنگِ رُخ حیات ہو

اے شاہؐ ِ دیں ! نجات کا عنواں ہے تیری یاد