نورِ نگاہِ خَلق ہو، رنگِ رُخ حیات ہو

نورِ نگاہِ خَلق ہو، رنگِ رُخ حیات ہو

زینتِ عرش و فرش ہو، رونقِ شش جہات ہو


عدل کی صبحِ زرنگار ، خیر کا باغِ پُر بہار

عِلم کا شہر بے کنار، حُسن کی کائنات ہو


شاہِ گلیم پوش بھی ، رہبرِ عقل و ہوش بھی

مرسلِ حق نیوش بھی، مظہر نورِ ذات ہو


قائدِ مرسلیں تمھی، ہادی آخریں تمھی

رحمتِ عالمیں تمھی ، مصدرِ التفات ہو


اب تو سنو انیسِ جاں ! نالہَ شب گزیدگاں

صبح کا نور ہو عیاں ظلمتِ شب کو مات ہو

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

رُوح کی تسکیں ہے ذِکر ِ احمدؐ ِ مختار میں

اعتبارِ نطق ہے گفتارِ خیرؐالانبیاء

دنیا کے مسلے ہوں کہ عقبیٰ کے مر حلے

کیوں نہ عالم ہو دریوزہ گر آپ کا

خلق دیتی ہے دہائی مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ

اے شاہؐ ِ دیں ! نجات کا عنواں ہے تیری یاد

منوّر ہوگیا عالم کا سینہ

کِس نے پایا ہے جہاں کی رہنمائی کا شرف

دلِ محزوں میں یاد ِ مصطؐفےٰ ہے

شرحِ غم ہے اشکِ خونیں اے شہنشاہِؐ مدینہ!