آیا ہے وفا کی خوشبو سےسینوں کو بسادینے والا

آیا ہے وفا کی خوشبو سےسینوں کو بسادینے والا

آیا ہے جہانِ ویراں کو گلزار بنا دینے والا


آیا ہے نگارِ ہستی کی زلفیں سلجھا دینے والا

آیا ہے عروسِ گیتی کے چہرے کو ضیا دینے والا


آیا ہے تمدّن کی شمعیں عالم میں جلا دینے والا

آیا ہے جہالت کی ظلمت دنیا سے مٹا دینے والا


آیا ہے سسکتی قدروں کو پیغامِ بقادینے والا

آیا ہے بھٹکتی نسلوں کومنزل کا پتا دینےوالا


آیا ہے بشر کو جینے کے آداب سکھادینے والا

آیا ہے بالآخر انساں کو انسان بنا دینے والا


مہکے ہے فضا سبحان اللہ، کہتے ہیں ستارے صلّ ِ علیٰ

دل کیوں نہ کہے ماشاء اللہ جاں کیوں نہ پکارے صلِّ علیٰ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

کِھلا گئی ہے بہر سُو نبیؐ کی طبعِ نفیس

کب ہوگی شبِ ہجراں کی سحراے سرورِ ؐ عالم صلِّ علیٰ

تیرا دربار ہے عالی آقاؐ

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار

لائے پیامِ رحمت حق سیّؐد البشر

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

سکہّ حق چلانے حضورؐ آگئے

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

ؐپھر اُٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی

تسخیرِ عرصہء دوسرا آپؐ کے لیے