محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

زندگی کا چلن سخت بے ڈھنگ ہے


امن کا لفظ پابندِ معنی نہیں

سارے عالم پہ اُمڈی ہوئی جنگ ہے


سِحرِ زر سے ہے پتّھر ضمیر جہاں

عرصہ زیست نادار پر تنگ ہے


پھول ہیں ہر ہوس کار کے واسطے

اہلِ حق کے لیے بارشِ سنگ ہے


تار الجھے ہوئے سازِ ہستی کے ہیں

بے اثر پھر صداقت کا آہنگ ہے


اشرف الخلق کے فکر و کردار پر

دم بخود ہے زمیں آسماں دنگ ہے


اتّباعِ شریعت کےدعوے تو ہیں

روح شیدائے تقلیدِ افرنگ ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار

لائے پیامِ رحمت حق سیّؐد البشر

آیا ہے وفا کی خوشبو سےسینوں کو بسادینے والا

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

سکہّ حق چلانے حضورؐ آگئے

ؐپھر اُٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی

تسخیرِ عرصہء دوسرا آپؐ کے لیے

یاد شبِ اسرا سے جو سینہ مرا چمکا

کرم ہے بے نہایت گنبدِ خضرا کے سائے میں

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں