کرم ہے بے نہایت گنبدِ خضرا کے سائے میں

کرم ہے بے نہایت گنبدِ خضرا کے سائے میں

چمک اُٹھتی ہے قسمت گنبدِ خضرا کے سائے میں


ہے مظہر آیہ لاَ ترْفَعُوْا کا زائرِ حضرتؐ

عقیدت کی ہے صورت گنبدِ خضرا کے سائے میں


مواجہ پر سلام ِ عجز کوئی پیش کرتا ہے

کسی کو ہے یہ حسرت گنبدِ خضرا کے سائے میں


ستونِ عائشہ کے پاس کوئی سر جھکائے ہے

کوئی ہے محوِ حیرت گنبدِ خضرا کے سائے میں


ملی کیا شان حنّانہ کو سرکارِ دوعالم سے

رہے گا تا قیامت گنبدِ خضرا کے سائے میں


ستونِ بی لبابہ کے قریں تائب ہوا تائب

ملی ذرّے کو رفعت گنبدِ خضرا کے سائے میں


نظر آئے تہجد اور وفود و وحی کے منظر

ہوئی بارانِ رحمت گنبدِ خضرا کے سائے میں


نشاناتِ سریر وُصفّہ سے آنکھیں ہوئیں روشن

ملی دل کو طراوت گنبدِ خضرا کے سائے میں


جبیں سائی ریاض الجنّتہ میں عینِ سعادت ہے

عبادت ہے عبادت گنبدِ خضرا کے سائے میں


حریمِ سرورِؐ دیں میں شرف سجدوں کا حاصل ہے

تشہدّ کی ہے لذّت گنبدِ خضرا کے سائے میں


مرے بے تاب جذبوں میں ہے صورت شادمانی کی

تڑپنے میں ہے راحت گنبد خضرا کے سائے میں


نظر کے سامنے ہیں گنبد ِ خضرا کے نظاّرے

عجب ہے دل کی حالت گنبدِ خضراکے سائے میں


یہ دربارِ رسالت ہے بہر سو اُن کے جلوے ہیں

تجّلی کی ہے کثرت گنبدِ خضراکے سائے میں


ہوئے جو آستانِ پاک پر حاضر ملی ان کو

شفاعت کی بشارت گنبدِ خضرا کے سائے میں


زیارت روضہ اطہر کی دیدارِ پیمبرؐ ہے

ہوئی کیا کیا عنایت گنبدِ خضرا کے سائے میں


رہا تائبؔ پہ لطف خاض سرکارِؐ دو عالم کا

ہوئی توفیقِ مدحت گنبدِ خضرا کے سائے میں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

سکہّ حق چلانے حضورؐ آگئے

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

ؐپھر اُٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی

تسخیرِ عرصہء دوسرا آپؐ کے لیے

یاد شبِ اسرا سے جو سینہ مرا چمکا

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

بارگاہِ نبوی میں جو پذیرائی ہو

خُلق جن کا ہے بہارِ زندگی اُن پر سلام

منزلِ ذات کا تنہا رہرو صلی اللہ علیہ وسلم

رسُولِ اکرم کا نامِ نامی