یاد شبِ اسرا سے جو سینہ مرا چمکا

یاد شبِ اسرا سے جو سینہ مرا چمکا

آنکھوں میں پھری شعلہ بجاں مسجدِ اقصیٰ


جس ارض مقدّس پہ خداوندِ جہاں نے

سرکارؐ کو نبیوں کی امامت سے نوازا


جس خاک پہ اصحاب کے سجدوں کے نشاں ہیں

جو ہے مرے اسلاف کی تاریخ کا حصہّ


معراجِ سماوی کا جو ہے نقطہ آغاز

جو قبلہ اوّل ہے فدایان ِ ہدیٰ کا


جس خاک سے آقاؐ مرے پہنچے سرِ قوسین

طے کرتے ہوے عرصہ گہِ عرشِ معلیّٰ


دل کو مرے تڑپانے لگی پستی اُمّت

جوں جوں مجھے یاد آنے لگی رفعتِ مولیٰ


اُس شاہؐ کی اُمت ہوئی محتاجِ زمانہ

ہر نعمتِ کونین ہے جس شہ کا صدقہ


جو دہر میں فیضانِ رسالت کی امیں ہے

وہ قوم ہوئی صدق و عدالت سے معرّا


یہ حالِ زبوں اُمّتِ مرحوم کا یارب!

اب شاعرِ سرکارؐ سے دیکھا نہیں جاتا


پھر ملۤتِ بیضا کو سر افرازِ جہاں کر

اب پھیر دے ماضی کی طرف چہرہ فردا


لوٹا دے بہاریں چمنستانِ صفا کی

لہرا دے زمانے میں صداقت کا پھریرا


حسرت ہے کہ تائبؔ بھی اُبھرتا ہوا دیکھے

ظلمات کی خندق سے ہدایت کا سویرا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

سکہّ حق چلانے حضورؐ آگئے

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

ؐپھر اُٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی

تسخیرِ عرصہء دوسرا آپؐ کے لیے

کرم ہے بے نہایت گنبدِ خضرا کے سائے میں

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

بارگاہِ نبوی میں جو پذیرائی ہو

خُلق جن کا ہے بہارِ زندگی اُن پر سلام

منزلِ ذات کا تنہا رہرو صلی اللہ علیہ وسلم