چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

رزقِ سخن ملا ہے یہ احسانِ نعت ہے


ترقیمِ نعت سے ہوئے الفاظ نور نور

اور جگمگا اُٹھا مرا دیوانِ نعت ہے


مدحت کے پھول بے بہا دامن میں آگئے

کتنا بڑا نبی کا گلستانِ نعت ہے


کچھ سسکیاں ہیں اشک ہیں کچھ درد اور درود

اتنا سا میرے پاس بھی سامانِ نعت ہے


عشقِ نبی میں ڈوب کے جو بھی کرے ثنا

وہ ہی عظیم ہے وہی سلطانِ نعت ہے


غارِ حرا کا نور ہو آنکھوں میں گر بسا

خامہ بھی وہ لکھے گا جو شایان نعت ہے


دل میں اگر ہو یاد شہِ دو جہان کی

ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے


آئی بہارنعتوں کی کلیاں چٹک گئیں

اے ناز تیرے قلب پہ بارانِ نعت ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

رکھے ہیں حمد و نعت کے موتی سنبھال کے

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

مدحت سرائیاں ہوں جو دل کے دیار میں

میرے ہونٹوں پر ثنا ہے احمدِ مختار کی

نعت جب تحریر کی الفاظ تارے بن گئے