نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

بڑا ہی دل نشیں ہے روضۂ سرکار کا جلوہ


چمکتی نور کی کرنیں ضیا پاشی ہے ہر جانب

بڑا مسرور کرتا ہے حسیں دربار کا جلوہ


مرے آقا کے کوئے پاک میں ہر شے نرالی ہے

بڑا دلکش ہے گنبد سے جڑے مینار کا جلوہ


جہاں پھوٹی تھی پہلی روشنی نورِ ہدایت کی

کبھی جاکر تو دیکھو اُس حرا کے غار کا جلوہ


بہاریں دیکھتی ہیں شاد ہو کر جھوم اٹھتی ہیں

مدینے میں کھجوروں کے ہرے اشجار کا جلوہ


تڑپتا ہے مرا دل اور ترستی ہیں مری آنکھیں

دکھا دے ناز کو یارب تو اپنے پیار کا جلوہ

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

مدحت سرائیاں ہوں جو دل کے دیار میں

میرے ہونٹوں پر ثنا ہے احمدِ مختار کی

نعت جب تحریر کی الفاظ تارے بن گئے

کر دیا رب نے عطا رزقِ سخن نعت ہوئی

سارے نبیوں کے سردار میرے نبی