دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

زندگی میں اس طرح بھی شاد مانی چاہئے


ہو گئی مدت دیارِ غیر میں رہتے ہوئے

اب تو شہرِ مصطفٰی میں دانہ پانی چا ہئے


آپ کی چوکھٹ پہ ہو جائے کبھی جو حاضری

شکر کے سجدوں کی ماتھے پر نشانی چاہئے


اپنے ہاتھوں سے سجاؤں پھول کشتِ نور میں

گلشنِ طیبہ کی مجھ کو باغبانی چاہئے


چہرۂ انور کی جس میں ہو زیارت خواب میں

ایک ایسی نیند ایسی شب سہانی چاہئے


لب نہیں کھلتے کبھی آقا کے در کے سامنے

حالِ دل کہنے کو اشکوں کی روانی چا ہئے


شاہ کا طوقِ غلامی ہو مری گردن میں ناز

قبر میں سرکار کی پہچان آنی چاہئے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

رکھے ہیں حمد و نعت کے موتی سنبھال کے

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

مدحت سرائیاں ہوں جو دل کے دیار میں