یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

جبریل بھی کرتا ہے گدائی ترے در کی


سُنتے ہیں بہت تختِ سلیمان کی شہرت

ہے عرش کے ہم پایہ چٹائی ترے در کی


ملتی ہے اسی در سے ہی عرفان کی دولت

رہ خوب ہمیں رب نے دکھائی ترے در کی


وہ روضۂ انوار، وہ گنبد کے نظارے

تصویر ہے آنکھوں میں سجائی ترے در کی


آتے ہیں ملائک بھی سلامی کو شب و روز

باری سے ملے جن کو رسائی ترے در کی


اے کاش کہ ہو جائے مدینہ مرا مسکن

بھاتی نہیں اب مجھ کو جدائی ترے در کی


چن چن کے جو لاتی ہوں میں الفاظ کے موتی

کرتا ہے قلم مدح سرائی ترے در کی


مل جائے اجازت کا شرف مجھ کو جو آقا

پلکوں سے کرے ناز صفائی ترے در کی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مدحتوں کا قرینہ ملا آپ سے

سارا عالم سجا آج کی رات ہے

اے شافعِ محشر شہِ ابرار اغثنی

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

رکھے ہیں حمد و نعت کے موتی سنبھال کے

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں