سارا عالم سجا آج کی رات ہے

سارا عالم سجا آج کی رات ہے

نور جلوہ نما آج کی رات ہے


قدسیوں کی چلی آج بارات ہے

شاہ دولھا بنا آج کی رات ہے


نور سے نور کی یہ ملاقات ہے

کیسا رتبہ ملا آج کی رات ہے


سج گیا عرش اور ساعتیں رُک گئیں

معجزہ ہو گیا آج کی رات ہے


اپنی امت کی ہے فکر ہر دم مجھے

مصطفیٰ نے کہا آج کی رات ہے


چوم کر نعلِ شاہِ امم عرش بھی

ہو گیا خوش نما آج کی رات ہے


ان کے صدقے میں سب نعمتیں مل گئیں

بخت روشن ہوا آج کی رات ہے


رحمتوں کے جو بادل تھے چھائے ہوئے

کھل کے برسی گھٹا آج کی رات ہے


ناز تیری بھی قسمت چمک جائے گی

تونے کی جو ثنا آج کی رات ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

یا الہٰی مری مقبول دعا ہو آمین

سخن کی بھیک ملے یہ سوال ہے میرا

اے شہِ دوسرا خاتم الانبیا

نعت کہنا شعار ہو جائے

مدحتوں کا قرینہ ملا آپ سے

اے شافعِ محشر شہِ ابرار اغثنی

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے