مدحتوں کا قرینہ ملا آپ سے

مدحتوں کا قرینہ ملا آپ سے

حرف و فن کا خزینہ ملا آپ سے


دل کی تاریکیوں میں ضیا آگئی

دل میں روشن ہوا ہے دیا آپ سے


دور طیبہ سے رہ کر بھی دوری نہیں

ربط ہے قلب و جاں کا ہوا آپ سے


جس طرف سے سواری گزرتی گئی

ہو گیا کہکشاں راستہ آپ سے


ورد صلِ علی کا میں کرتی رہی

فیض مجھ کو ملا بے بہا آپ سے


جب سے زہرہ کے در کی غلامی ملی

مل گئے ہیں خزانے شہا آپ سے


رحمتیں مل گئیں روشنی آگئی

حالِ دل ناز نے جب کہا آپ سے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مچی ہے دھوم کہ نبیوں کے تاجور آئے

یا الہٰی مری مقبول دعا ہو آمین

سخن کی بھیک ملے یہ سوال ہے میرا

اے شہِ دوسرا خاتم الانبیا

نعت کہنا شعار ہو جائے

سارا عالم سجا آج کی رات ہے

اے شافعِ محشر شہِ ابرار اغثنی

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی