ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

کرتی ہوں ثنا، آپ کا فیضانِ کرم ہے


آقا کی محبت کا دیا دل میں ہے روشن

بخشش کا ملا خوب یہ سامانِ کرم ہے


بھرجاتے ہیں دامان فقیروں کے یہاں پر

طیبہ میں کُھلا خاصۂ خاصانِ کرم ہے


رحمت کی گھٹائیں ہیں تو اُجلی سی فضا ہے

اس رشکِ جناں شہر میں بارانِ کرم ہے


ہو سامنے آنکھوں کے حسیں گنبدِ خضرا

مدت سے مرے دل میں یہ ارمانِ کرم ہے


صد شکر ہے یہ ناز نے اپنائی ہے عادت

لب ذکر کریں اُن کا ہی احسانِ کرم ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

اے شہِ دوسرا خاتم الانبیا

نعت کہنا شعار ہو جائے

مدحتوں کا قرینہ ملا آپ سے

سارا عالم سجا آج کی رات ہے

اے شافعِ محشر شہِ ابرار اغثنی

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

رکھے ہیں حمد و نعت کے موتی سنبھال کے

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے