تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

قلم جب قبلہ رو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے


بکھرتے جائیں گے قرطاس پرنوری حسیں منظر

مدینہ رو برو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے


وہ چرچا نور کا وہ گنبد و مینار کی باتیں

یہ ساری گفتگو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے


ادب سے گھومنا شہرِ کرم کی پاک گلیوں میں

رسائی کُو بکُو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے


تصور ہو نظر کے سامنے ہیں جلوہ گر آقا

نظارہ چار سو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے


غلامی ناز کومل جائے آقا کے گھرانے کی

یہ پوری آرزو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

رکھے ہیں حمد و نعت کے موتی سنبھال کے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ