ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

ہجر کی رات کٹے اور سحر ہو جائے


کاش آ جائیں وہ گھڑیاں کہ بلا لیں آقا

زندگی آپ کی چوکھٹ پہ بسر ہو جائے


فرطِ جذبات سے چوموں وہ سنہری جالی

میری قسمت میں بھی یہ لمحہ اگر ہو جائے


جس گھڑی پیش کروں ان کو درود اور سلام

اس گھڑی ناز پہ ان کی بھی نظر ہو جائے


عمر بھر کرتی رہوں شاہِ دو عالم کی ثنا

میرا ہر شعر درِ شہ پہ امر ہو جائے


ہے تمنا یہ کہ مقبول ہو مدحت جو کروں

میرے اشعار میں اتنا تو اثر ہو جائے


ناز ہو جائے غلامی کی جو نسبت اُن سے

سجدۂ شکر کے قابل مرا سر ہو جائے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

رکھے ہیں حمد و نعت کے موتی سنبھال کے

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

مدحت سرائیاں ہوں جو دل کے دیار میں

میرے ہونٹوں پر ثنا ہے احمدِ مختار کی

نعت جب تحریر کی الفاظ تارے بن گئے

کر دیا رب نے عطا رزقِ سخن نعت ہوئی