دل میں انگڑائیاں لیتی ہیں تمنائیں حضور

دل میں انگڑائیاں لیتی ہیں تمنائیں حضور

آپ کا اذن اگر ہو تو چلے آئیں حضور


ہم تِری عظمت و رفعت کے ترانے دل سے

جیسے گاتے ہیں یہاں حشرمیں بھی گائیں حضور


انجم و مہر و قمر آپ سے پاتے ہیں چمک

میری قسمت کے ستارے کو بھی چمکائیں حضور


اس سے بڑھ کر بھلا کیا اور سعادت ہوگی

آپ کے در پہ جب آ جائیں تو مر جائیں حضور


آپ جب حشر میں سلطانِ شفاعت ٹھہرے

پھر نہ کیوں آپ کی نسبت پہ ہم اترائیں حضور


آپ کے در سے شفا پاتے ہیں امراضِ بدن

ہم گناہوں کے مرض سے بھی شفا پائیں حضور


گلشنِ فن میں کِھلیں اور مہکتی نعتیں

میرے افکار و خیالات کو مہکائیں حضور


دست بستہ میں کھڑے ہوکے کروں پیش سلام

آپ تشریف مری قبر میں جب لائیں حضور


آپ ہی کا تو ثنا خواں ہے شفیقِِؔ عاصی

جس طرح حق ہے ثنا گوئی کا کروائیں حضور

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

پھر تو لازم ہے تجھے تنگئِ داماں کا ملال

جس دن سے اُس نے دیکھا ہے معراج کا سفر

سبز گنبد مصطفےٰ ﷺ کا پیارا روضہ چھوڑ کر

سرکار پڑی جب سے نظر آپ کے در پر

طیبہ میں ہیں فلک کے حوالے زمین پر

خدایا ! جائیں مکرر نبی کے روضے پر

اے کاش وہ اشعار پہنچ جائیں وہیں پر

بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر

رشتۂِ عشق و عقیدت ارفع و اعلیٰ سے جوڑ

ہو جاتی ہے مدحت بھی شہِ کون و مکاں کی