اے کاش وہ اشعار پہنچ جائیں وہیں پر

اے کاش وہ اشعار پہنچ جائیں وہیں پر

میں نے جو کہے گنبدِ خضرا کے مکیں پر


کہنے کو تو بیٹھے ہیں مدینے کی زمیں پر

یوں لگتا ہے جیسے ہیں کہیں چرخِ بریں پر


انکار نہیں ہے تِری جنت سے اے رضواں

جو رشکِ جناں ہے وہ مدینہ ہے زمیں پر


اس رات درِ گنبدِ بے در بھی کُھلا تھا

دروازے کُھلے سینکڑوں اس ماہ جبیں پر


ساتھ اپنے لئے شعبۂِ انوار فلک بھی

قربان ہوا جاتا ہے طیبہ کی زمیں پر


افلاک سے انوار برستے رہے پیہم

سرکار کے دربار میں اک فرش نشیں پر


کیوں چھوڑکے طیبہ کے نظارے چلے آئے

رہ جاتے شفیقؔ آپ اسی پاک زمیں پر

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

سبز گنبد مصطفےٰ ﷺ کا پیارا روضہ چھوڑ کر

سرکار پڑی جب سے نظر آپ کے در پر

طیبہ میں ہیں فلک کے حوالے زمین پر

دل میں انگڑائیاں لیتی ہیں تمنائیں حضور

خدایا ! جائیں مکرر نبی کے روضے پر

بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر

رشتۂِ عشق و عقیدت ارفع و اعلیٰ سے جوڑ

ہو جاتی ہے مدحت بھی شہِ کون و مکاں کی

بے شک نواز سکتے ہیں مجھ کو بھی خلد سے

رُکنا تو درِ ا حمد ِ مختا ر پہ رکنا