رُکنا تو درِ ا حمد ِ مختا ر پہ رکنا

رُکنا تو درِ ا حمد ِ مختا ر پہ رکنا

اے دھڑکنو ! یہ ہے دلِ بیمار کی خواہش


درہم کی تمنا ہے نہ دینار کی خواہش

رکھتا ہوں فقط روضۂِ سرکار کی خواہش


سرکارکی گلیوں میں پڑے رہنےکی ضد ہے

سرکار ہو پوری دلِ بیمار کی خواہش


ہر دن کو رخِ سرورِ عالم کی تمنا

ہر رات کو زلفِ شہِ ابرار کی خواہش


ظلمت کا کہیں نام و نشاں تک نہ رہے گا

ہے دل میں اگر شہرِ پُر انوار کی خواہش


قبل اس سے کہ بینائی چلی جائے خدایا

پوری ہو رخِ یار کے دیدار کی خواہش


رُکنا تو درِ احمدِ مختار پہ رکنا

اے دھڑکنو! یہ ہے دلِ بیمار کی خواہش


کب سے ہے شفیقؔ آپ کے دیدار کا خواہاں

پوری بھی ہو سرکار گنہگار کی خواہش

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

اے کاش وہ اشعار پہنچ جائیں وہیں پر

بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر

رشتۂِ عشق و عقیدت ارفع و اعلیٰ سے جوڑ

ہو جاتی ہے مدحت بھی شہِ کون و مکاں کی

بے شک نواز سکتے ہیں مجھ کو بھی خلد سے

نبی کے نام کا طغرا لگا ہے جس دن سے

شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

ہم صبح و شام کرتے ہیں مدحت رسول کی

وہ جس نے آتشِ عشقِ نبی لگالی ہے

میرے آقا کے پسینے کا بدل ممکن نہیں