حضوؐر اب تو نہ مرنے میں ہوں نہ جینے میں

حضوؐر اب تو نہ مرنے میں ہوں نہ جینے میں

میں خود یہاں ہوں مری روح ہے مدینے میں


قدم قدم پہ بہار آئی ہے مدینے میں

مگر وہ آگ لگی ہے جو میرے سینے میں


نہ ہوگی اب کے بھی کیا حاضری مدینے میں

اک اور ٹھیس لگی دِل کے آبگینے میں


ہدایتوں کے لئے رہنمائیوں کے لئے

مرے حضُورؐ مرے ساتھ ہیں سفینے میں


اُسی کا قلب ہے آماجگاہِ سورۂ نُور

شبیہِ حضرتِؐ والا ہے جس کے سینے میں


حدُودِ عرش سے آگے نکل گئے وہ قدم

بڑھا کے اک نئی منزل فلک کے زینے میں


رُواں رُواں عرقِ انفعال میں تر ہے

یہ جسم لے کے کہاں آگئے مدینے میں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

کوئی کہیں ہو اگر آپؐ کی نگاہ میں ہے

یہ کس کی تشریف آوری پر بہار مژدہ سنا گئی ہے

ایک عجیب کیفیت قلب و نظر کے ساتھ ہے

اُس ایک نام کی حُرمت پہ بے شمار درُود

مری بے بسی پہ کرم کرو

بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں

کیا کہئے حضورِ شاہِؐ اُمم

اک نظر ایسی بھی مجھ پر مرے آقاؐ ہو جائے

حَرم کے زائر صفا کے راہی

لکھ لکھ کے تابکے سرِ منبر پڑھوں سلام