اک نظر ایسی بھی مجھ پر مرے آقاؐ ہو جائے
قطرہ دریا تو نہیں ہوتا ہے ‘ دریا ہو جائے
مُجھ سے گمراہ پہ بھی بابِ کرم وا ہو جائے
دین کے نُور سے روشن مری دنیا ہو جائے
آپؐ کے وصف رگ و پے میں اُترتے دیکھوں
آپؐ کی طرح مری زندگی سادا ہو جائے
اسی حسرت میں گزرتے ہیں شب و روز مرے
جو کرم مجھ پہ ہُوا ہے وہ دوبارہ ہو جائے
اشک آنکھوں سے جو ٹپکیں تو دُعا بن جائیں
اس قدر تڑپوں کہ ہر سانس تقاضا ہو جائے
لب پہ آتا ہے تو ہر سانس میں بس جاتا ہے
دِل میں وہ نام اُتر جائے تو دِل کیا ہو جائے
سُن کے پڑھنے لگیں قدسی بھی مرے ساتھ حنیفؔ
دَر خورِ نعت کوئی شعر تو ایسا ہو جائے
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام