بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں

بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں

دستگیرِ بے کساں ہم بے کسی سے آئے ہیں


کتنے درماندہ مسافر کارواں در کارواں

آپؐ کے قدموں میں راہِ گمرہی سے آئے ہیں


ہم جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا رہے

یہ سلیقے آپؐ ہی کی پیروی سے آئے ہیں


جتنے کسریٰ جتنے جسم آئے ہیں اے خُلقِ عظیمؐ

آپؐ کی حلقہ بگوشی میں خوشی سے آئے ہیں


آپؐ نے تو ہر طرح سکھلائے آدابِ حیات

ہم پہ یہ ادبار اپنی خُود سری سے آئے ہیں


آپؐ سب کچھ جانتے ہیں کیسے ہو عذرِ گناہ

سر ندامت سے جھُکائے عاجزی سے آئے ہیں


پا برہنہ ، پا شکستہ ، دِل گرفتہ ، غم زدہ

جانِ رحمت ہم دیارِ بے کسی سے آئے ہیں


فقر میں ایسی بلندی ، عجز میں ایسا شکوہ

اُنؐ کے آگے کج کلہ بھی عاجزی سے آئے ہیں


نذرِ آقاؐ ہوں تو ان کی قدر بھی ہو کچھ حنیفؔ

اشک آنکھوں میں جو دِل کی بیکلی سے آئے ہیں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

یہ کس کی تشریف آوری پر بہار مژدہ سنا گئی ہے

ایک عجیب کیفیت قلب و نظر کے ساتھ ہے

اُس ایک نام کی حُرمت پہ بے شمار درُود

مری بے بسی پہ کرم کرو

حضوؐر اب تو نہ مرنے میں ہوں نہ جینے میں

کیا کہئے حضورِ شاہِؐ اُمم

اک نظر ایسی بھی مجھ پر مرے آقاؐ ہو جائے

حَرم کے زائر صفا کے راہی

لکھ لکھ کے تابکے سرِ منبر پڑھوں سلام

اُنؐ کی نبیوں میں پہچان سب سے الگ