اُس ایک نام کی حُرمت پہ بے شمار درُود

اُس ایک نام کی حُرمت پہ بے شمار درُود

وہ ایک نام جو رحمت بنا سبھی کے لئے


خدا گواہ خدا کی کتاب کی صُورت

حیاتِ پاک نمونہ ہے زندگی کے لئے


قدم اُٹھے تو زمان و مکاں تھے زیرِ قدم

یہ اہتمام ہوا ہے کبھی کسی کے لئے؟


بشر کی فکر کا خیر البشرؐ کی سمت سفر

یہ رابطہ بھی سعادت ہے آدمی کے لئے


جراحتوں کے عوض ہاتھ اُٹھے دعاؤں کو

کلیجہ چاہئے دشمن سے دوستی کے لئے


مرے مزاج پہ بھاری ہے اب غزل کا مزاج

کھُلے زباں تو کھُلے مدحتِ نبیؐ کے لئے


غلامِ شاؐہِ مدینہ کہیں گے لوگ مُجھے

گدائی ہے اسی شانِ خسروی کے لئے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

اب اس منزل پہ عمر مختصر ہے

تمام عمر اسی ایک کام میں گزرے

کوئی کہیں ہو اگر آپؐ کی نگاہ میں ہے

یہ کس کی تشریف آوری پر بہار مژدہ سنا گئی ہے

ایک عجیب کیفیت قلب و نظر کے ساتھ ہے

مری بے بسی پہ کرم کرو

حضوؐر اب تو نہ مرنے میں ہوں نہ جینے میں

بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں

کیا کہئے حضورِ شاہِؐ اُمم

اک نظر ایسی بھی مجھ پر مرے آقاؐ ہو جائے