اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے

اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے

شہرِ مصطفےٰ میں پھر حاضری کا موسم ہے


یادِ سرورِ عالم آج پھر چلی آئی

قلب کی فضاؤں میں روشنی کا موسم ہے


یا نبی پلا دیجے اپنی دید کا شربت

میری خشک آنکھوں میں تشنگی کا موسم ہے


ہر گھڑی سخاوت کے پھول کھلتے رہتے ہیں

گلشنِ رسالت میں کب کمی کا موسم ہے


ہے اسے شرف حاصل شاہ کی ولادت کا

سب سے افضل و اعلی بس نبی کا موسم ہے


زائرو ! تم اشکوں سے عرضِ حال کر لینا

مصطفےٰ کے روضے پر خامشی کا موسم ہے


اب شفیقؔ رُت کوئی دوسری نہ آئے گی

حشر تک شہِ دیں کی پیروی کا موسم ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

وجد میں شاہ اگر ہے تو گدا کیف میں ہے

ہر طرف گونجی صدا جشنِ ربیع النور ہے

باعثِ رحمتِ ایزدی نعت ہے

محبت فخر کرتی ہے عقیدت ناز کرتی ہے

دماغ ہوتا ہے روشن، دہن مہکتا ہے

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

ارے ناداں! نہ اِترا داغِ سجدہ جو جبیں پر ہے

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

کس قدر تھا احترامِ باریابی دیکھیے

نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے