کس قدر تھا احترامِ باریابی دیکھیے

کس قدر تھا احترامِ باریابی دیکھیے

گوش بر آواز رہتے تھے صحابی دیکھیے


آسماں کے چاند کو خاطر میں وہ لاتا نہیں

ذرّۂِ طیبہ کے تیور آفتابی دیکھیے


نسبتِ سرکار سے ممتاز کتنی ہو گئی

حضرتِ مولا علی کی بو ترابی دیکھیے


ہے کلام اللہ کی تفسیر بھی لکھی ہوئی

مصطفےٰ کا روئے انور ہے کتابی دیکھیے


پھر چلے آئے جنابِ مصطفےٰ کس شان سے

خانۂِ کعبہ میں شانِ فتحیابی دیکھیے


کیا پتہ کب ہو تمنا پوری ان کی دید کی

کب سکوں پائے طبیعت اضطرابی دیکھیے


پڑھ کے روز و شب شفیقؔ اُن پر درودِ غوثیہ

زندگی کے مرحلوں میں کامیابی دیکھیے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

دماغ ہوتا ہے روشن، دہن مہکتا ہے

اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

ارے ناداں! نہ اِترا داغِ سجدہ جو جبیں پر ہے

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے

درودِ پاک کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے

ہمارا دن ہے منور تو رات روشن ہے

ہیں واقف مِری دھڑکنوں سے طلب سے

محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے